Posts

Showing posts from March, 2025

The Power of Self-Belief: Unlocking Your True Potential

  Success is not just about talent or resources—it’s about belief in yourself. History is filled with stories of people who had nothing but a strong belief in their dreams, and they turned their lives around. Whether it's Elon Musk, who revolutionized space travel, or J.K. Rowling, who went from rejection to global success, one thing they had in common was unshakable self-belief. Why Self-Belief Matters? Imagine two people with the same talent. One doubts themselves, the other believes they can achieve anything. Who do you think will succeed? The one who trusts their own abilities. Self-belief fuels: ✅ Confidence – You take more chances. ✅ Resilience – You bounce back from failure. ✅ Growth Mindset – You keep learning and improving. Overcoming Self-Doubt We all experience moments of doubt. Even the most successful people have faced rejection, criticism, and failures. The difference? They didn’t give up. Here’s how you can overcome self-doubt: 1️⃣ Challenge Negative Thoughts Instead...

منے کا خواب

Image
 اسلام علیکم کیسے ہیں آپ لوگ امید کرتا ہوں آپ سب ٹھیک خرو خریت سے ہوں گے  آئین اب آپ منا کی سچی سٹوری سناتا ہوں حصہ 1: منے کی دنیا منا ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا، جہاں کچے مکان، کھیت اور تنگ گلیاں تھیں۔ اس کا اصل نام حسن تھا، مگر سب اسے منا کہتے تھے۔ وہ صرف سات سال کا تھا، مگر اس کی آنکھوں میں چمک تھی، جیسے کچھ بڑا کرنے کی خواہش چھپی ہو۔ اس کے ابو ایک مستری تھے، جو دن بھر اینٹیں جوڑتے، دیواریں کھڑی کرتے، اور ہاتھوں میں پڑے چھالوں کو دیکھ کر صرف مسکرا دیتے۔ امی گھر کے کاموں میں مصروف رہتیں، کبھی آٹا گوندھتیں، کبھی پانی بھرتیں، اور کبھی سلائی کرکے کچھ پیسے کما لیتیں۔ منا کو پڑھنے کا بہت شوق تھا، مگر اسکول میں جانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ بھی کتابیں لے کر اسکول جائے، بستہ پیٹھ پر ہو، اور استاد اسے بھی سبق پڑھائیں۔ مگر حقیقت کچھ اور تھی۔ وہ زیادہ تر دن گھر کے باہر گلی میں گزارتا، جہاں دوسرے بچے کھیلتے کودتے اور کبھی کبھی جھگڑتے بھی۔ منا کے پاس کھلونے نہیں تھے، مگر اس کے پاس کچھ خاص تھا—ایک خواب۔ حصہ 2: ایک خاص دن ایک دن منا اپنے گھر کے سامنے بیٹھا ہوا تھ...

جدائی کے آنسو

Image
  رات کی تاریکی ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔ چاند کی مدھم روشنی کھڑکی سے چھن کر اندر آ رہی تھی، لیکن وہ روشنی بھی کمزور پڑ گئی تھی، جیسے کسی کے غم میں ڈوبی ہو۔ زریاب کھڑکی کے پاس کھڑا تھا، آنکھوں میں ایک سمندر تھا، لیکن آنسو بہنے کی ہمت نہیں کر رہے تھے۔ آج کے بعد وہ روشانے کو کبھی نہیں دیکھ پائے گا، یہ سوچ ہی اس کے دل پر ہتھوڑے برسا رہی تھی۔ روشانے... وہ نام جو کبھی اس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتا تھا، آج اس کے سینے پر بوجھ بن چکا تھا۔ دو سال کی محبت، بے شمار حسین لمحے، بے حساب خواب... سب کچھ ایک پل میں مٹی ہو چکا تھا۔ زریاب نے خود کو مضبوط رکھنے کی بہت کوشش کی، لیکن محبت کی شکست برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ محبت جو بے بسی میں ڈھل گئی روشانے اور زریاب کی پہلی ملاقات یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔ روشانے کی آنکھوں میں زندگی کی چمک تھی، اور زریاب کی دنیا وہی چمک بن گئی تھی۔ وہ گھنٹوں باتیں کرتے، خواب بُنتے، مستقبل کے حسین رنگوں میں کھو جاتے۔ لیکن محبت صرف دلوں کے درمیان نہیں ہوتی، کبھی کبھی تقدیر اور حالات بھی اس میں دخل دیتے ہیں۔ روشانے کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جہاں عزت، روایات اور خاندان ک...

عنوان: "وہ جو میری روح میں بسا تھا"

Image
  زندگی میں بعض ملاقاتیں محض اتفاق نہیں ہوتیں، وہ نصیب کا لکھا ہوتی ہیں۔ یہی کچھ زین اور عائزہ کے ساتھ ہوا۔ زین، ایک سنجیدہ مزاج مگر گہری سوچوں والا لڑکا، جس کی دنیا کتابوں اور آرٹ سے جڑی تھی۔ اور عائزہ؟ وہ تو جیسے بہار کی خوشبو تھی، ہر جگہ ہنسی بکھیرنے والی، زندگی سے بھرپور ایک لڑکی۔ دونوں کی پہلی ملاقات ایک آرٹ گیلری میں ہوئی، جہاں زین کی بنائی ہوئی تصویریں نمائش کے لیے رکھی گئی تھیں۔ عائزہ کو آرٹ کی زیادہ سمجھ نہیں تھی، مگر ایک تصویر کے سامنے وہ ٹھہر گئی—ایک لڑکی، جو کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی، اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی اداسی تھی۔ "یہ لڑکی کس کا انتظار کر رہی ہے؟" عائزہ نے بےاختیار پوچھا۔ زین نے چونک کر اسے دیکھا، "کبھی کبھی کچھ سوالوں کے جواب تصویر میں نہیں، دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتے ہیں۔ تمہیں کیا لگتا ہے؟" عائزہ مسکرا دی، "مجھے لگتا ہے کہ یہ کسی ایسے شخص کا انتظار کر رہی ہے جو اسے خود سے زیادہ سمجھے!" یہ جملہ زین کے دل میں کہیں گہرائی تک اتر گیا۔ وہ پہلی ملاقات ایک خوبصورت آغاز بن گئی۔ محبت کا احساس زین اور عائزہ کی دوستی ہونے میں زیادہ وقت نہ لگا۔...

علیزہ اور آفتاب – ایک ادھوری محبت

Image
  علیزہ ہمیشہ سے ایک سنجیدہ اور محتاط لڑکی تھی۔ اسے بچپن سے سکھایا گیا تھا کہ جذبات پر قابو رکھنا ضروری ہوتا ہے، کیونکہ محبت ہمیشہ خوشیوں کا وعدہ نہیں کرتی۔ وہ کتابوں میں کھوئی رہتی، تنہائی میں خوش رہتی، اور زندگی کو ایک منصوبے کے تحت گزارنے کی قائل تھی۔ دوسری طرف، آفتاب زندگی کا مکمل الٹ تھا۔ وہ کھل کر ہنسنے، دل سے جینے اور ہر لمحے میں خوشی تلاش کرنے والا شخص تھا۔ اس کی زندگی کا ایک ہی اصول تھا: "محبت ہی اصل حقیقت ہے، باقی سب بہانے ہیں۔" وہ لوگوں سے آسانی سے گھل مل جاتا تھا، ہر کسی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے والا شخص تھا۔ پہلی ملاقات علیزہ اور آفتاب کی ملاقات ایک سیمینار میں ہوئی تھی۔ علیزہ اپنی کمپنی کی نمائندگی کر رہی تھی اور آفتاب ایک نوجوان کاروباری شخصیت کے طور پر مدعو تھا۔ علیزہ نے جب پہلی بار آفتاب کو بولتے سنا تو وہ حیران رہ گئی۔ آفتاب کے الفاظ میں جوش تھا، اعتماد تھا اور ایک الگ سی روشنی تھی۔ سیمینار کے بعد، آفتاب نے علیزہ سے رسمی گفتگو کی۔ علیزہ نے مختصر جواب دیے اور جلدی سے اپنی جگہ پر لوٹ آئی۔ مگر آفتاب نے اس کی آنکھوں میں چھپی کہانی دیکھ لی تھی۔ وہ جان چکا تھا ک...

سراب ایک حقیقت کے قریب کہانی

Image
 سراب – ایک حقیقت کے قریب کہانی گاؤں کولو تارڑ کی مٹی اور ایک خواب کولو تارڑ، حافظ آباد کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ یہاں کے لوگ سادہ مگر محنتی تھے۔ زیادہ تر زراعت پر انحصار کرتے تھے۔ گاؤں کی مٹی زرخیز تھی، لیکن یہاں ترقی کے مواقع کم تھے۔ ریحان اسی گاؤں کا ایک عام سا نوجوان تھا۔ اس کے والد کھیتوں میں مزدوری کرتے، اور وہ خود بھی کبھی کبھار ان کے ساتھ ہاتھ بٹاتا تھا۔ لیکن ریحان کے خواب صرف کھیتوں تک محدود نہیں تھے۔ وہ کچھ بڑا کرنا چاہتا تھا، ایسا کچھ جس سے اس کے ماں باپ کو فخر ہو۔ ریحان اکثر سوچتا کہ شہر کی چمکتی روشنیوں میں کہیں نہ کہیں اس کے لیے بھی کوئی موقع ہوگا۔ وہ اکثر لاہور یا فیصل آباد جانے والے مزدوروں کی باتیں سنتا، جو کہتے تھے کہ شہر میں اگر محنت کی جائے تو زندگی سنور سکتی ہے۔ اجنبی کی پیشکش ایک دن گاؤں میں ایک اجنبی آیا۔ اس کا نام سراج تھا، اور وہ خود کو کسی فیکٹری کا نمائندہ بتا رہا تھا۔ وہ نوجوانوں کو بتا رہا تھا کہ لاہور میں فیکٹری میں کام کا بہترین موقع ہے، اور جو جانا چاہے، اسے رہائش اور کھانے پینے کی سہولت بھی دی جائے گی۔ ریحان کا دل تیز دھڑکنے لگا۔ یہ موقع وہ ہات...

ابراہیم اور لبنیٰ کی کہانی

Image
 ابراہیم اور لبنیٰ کی کہانی باب 1: پہلی ملاقات ابراہیم ایک خوش اخلاق اور محنتی نوجوان تھا جو اپنے والد کے ساتھ خاندانی کاروبار میں ہاتھ بٹاتا تھا۔ ان کا خاندان کئی نسلوں سے دودھ اور مٹھائی کا کاروبار کر رہا تھا، اور ابراہیم کو بھی یہ وراثت سنبھالنی تھی۔ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتا تھا اور ہمیشہ اپنے کام میں مگن رہتا۔ دوسری طرف، لبنیٰ ایک ذہین اور خودمختار لڑکی تھی، جو حال ہی میں یونیورسٹی سے فارغ ہوئی تھی اور اب ایک اسکول میں پڑھا رہی تھی۔ ان دونوں کی پہلی ملاقات ایک شادی میں ہوئی۔ شادی کی تقریب ایک روایتی پاکستانی ماحول میں ہو رہی تھی، جہاں رنگ برنگے لباس، روایتی کھانے اور خوشیوں کی گونج تھی۔ ابراہیم، جو عام طور پر زیادہ بات چیت نہیں کرتا تھا، وہاں اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا کہ اچانک ایک ہلکی سی ٹکر ہوئی۔ "معاف کیجیے گا!" لبنیٰ نے جلدی سے کہا اور پیچھے ہٹی۔ "کوئی بات نہیں، آپ ٹھیک ہیں؟" ابراہیم نے نرمی سے پوچھا۔ یہ پہلی بار تھا جب دونوں نے ایک دوسرے کو غور سے دیکھا۔ لبنیٰ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا اور چلی گئی، لیکن اس مختصر لمحے نے دونوں کے دل میں ایک ...

اندھیرے سے روشنی تک

Image
اندھیرے سے روشنی تک رات کا سناٹا چاروں طرف پھیل چکا تھا۔ فیصل آباد کی ایک پرانی بستی میں ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں مدھم روشنی کا چراغ جل رہا تھا۔ کھڑکی سے آتی ہوا ہلکے پردے کو جھولا دے رہی تھی۔ اس کمرے میں اقصیٰ بیٹھی ہوئی ایک کاپی میں کچھ لکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی اور آنکھوں میں امیدوں کی چمک۔ وہ ایک کامیاب مصنفہ بننے کا خواب دیکھتی تھی، لیکن حالات اس کے حق میں نہیں تھے۔ اس کی ماں دروازے پر کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ "بیٹا، کب تک یہ کہانیاں لکھتی رہو گی؟ یہ لکھنے سے کچھ نہیں ملے گا، کوئی ڈھنگ کا کام دیکھو۔" اقصیٰ نے سر اٹھایا، ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر مسکرا کر بولی، "امی، ایک دن میری کہانی چھپے گی، اور پھر آپ دیکھیں گی، سب بدل جائے گا۔" ماں نے آہ بھری اور سر جھٹک کر کمرے سے باہر چلی گئی۔ اقصیٰ کے لیے یہ الفاظ نئے نہیں تھے۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی ماں فکر مند ہے، لیکن وہ اپنے خواب کو آسانی سے چھوڑنے والی نہیں تھی۔ پہلا قدم اگلے دن اقصیٰ ایک مشہور اشاعتی ادارے کے دفتر پہنچی۔ اس کے ہاتھ میں اس کی کہانیوں کا مسودہ تھا۔ وہ بےحد پُرجوش تھی، لیکن جیسے ہی وہ م...

مل کے بھی نہ مل پائے

Image
 فیصل اور رُباب – مل کر بھی نہ مل سکے پہلا باب – دو دنیائیں فیصل حافظ آباد کا رہنے والا تھا، ایک چھوٹے سے کاروباری گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے والد دودھ کا کاروبار کرتے تھے، اور فیصل بھی ان کی مدد کرتا تھا۔ لیکن اس کے خواب اس چھوٹے سے شہر سے کہیں آگے تھے۔ وہ کچھ بڑا کرنا چاہتا تھا، خود کو منوانا چاہتا تھا۔ اسی لیے جب اسے اسلام آباد کی ایک مشہور یونیورسٹی میں اسکالرشپ ملی، تو اس کے لیے یہ کسی خواب سے کم نہ تھا۔ دوسری طرف، رُباب اسلام آباد کے قریب واقع گاؤں سیدپور میں رہتی تھی۔ سیدپور ایک قدیم گاؤں تھا، جہاں وقت کی رفتار دھیمی تھی، جہاں درختوں کی سرگوشیاں رات کی خاموشی میں کہانیاں سناتی تھیں۔ رُباب کا تعلق ایک قدامت پسند خاندان سے تھا، جہاں لڑکیوں کے خوابوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ لیکن اس کے والد نے اس کی تعلیم کی حمایت کی، اور وہ اسلام آباد کی اسی یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگئی جہاں فیصل آیا تھا۔ دوسرا باب – پہلی ملاقات فیصل اور رُباب کی پہلی ملاقات یونیورسٹی کی لائبریری میں ہوئی۔ فیصل ایک نایاب کتاب ڈھونڈ رہا تھا جو رُباب پہلے ہی لے چکی تھی۔ "کیا یہ کتاب اب...

مُحبت کا انتظار

Image
 محبت کا انتظار رات کی تاریکی میں چاند کی ہلکی روشنی کھڑکی سے اندر آ رہی تھی۔ ندا کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔ وہ بستر پر لیٹی چھت کو گھور رہی تھی۔ اس کے دل میں بے شمار خیالات گردش کر رہے تھے۔ وہ پچھلے کچھ مہینوں سے ایک عجیب کشمکش میں مبتلا تھی۔ ندا ایک عام سی مگر حساس لڑکی تھی۔ وہ خواب دیکھتی تھی، محبت پر یقین رکھتی تھی، مگر اسے ہمیشہ لگا کہ اس کی محبت کی کہانی کبھی مکمل نہیں ہو پائے گی۔ اس کی زندگی میں سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا، مگر وہ ہمیشہ کسی انجانے انتظار میں رہتی۔ ایک انجان ملاقات ایک دن، جب وہ اپنی دوست سارہ کے ساتھ یونیورسٹی کے کیفے میں بیٹھی ہوئی تھی، تو اس کی نظر ایک اجنبی پر پڑی۔ وہ قد میں لمبا، آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک اور چہرے پر سنجیدگی لیے بیٹھا ہوا تھا۔ ندا کو یوں لگا جیسے وہ کسی گہری سوچ میں ہو۔ "یہ نیا لڑکا کون ہے؟ پہلے کبھی نہیں دیکھا اسے!" سارہ نے سرگوشی کی۔ ندا نے کندھے اچکائے۔ "پتہ نہیں، لیکن کچھ الگ سا ہے اس میں!" دن گزرتے گئے، اور ندا کو اکثر وہ لڑکا یونیورسٹی میں نظر آنے لگا۔ کبھی وہ لائبریری میں کتابیں پڑھتا ملتا، کبھی کیفے میں چا...

مُحبت کی خوشبو

Image
 محبت کی خوشبو فیروز پور کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رمشا رہتی تھی۔ وہ ہوا کی طرح آزاد، بہار کی طرح خوشبودار اور چاندنی کی طرح نرم دل لڑکی تھی۔ پورے گاؤں میں اس کی ہنسی سب سے خوبصورت سمجھی جاتی تھی۔ وہ اکثر شام کے وقت گلابوں کے باغ میں جا بیٹھتی اور پرانے ناول پڑھتی۔ دوسری طرف، احمد ایک سنجیدہ طبیعت کا نوجوان تھا، جو شہر میں رہتا تھا اور ادب سے گہری محبت رکھتا تھا۔ وہ کچھ دنوں کے لیے اپنے دادا دادی سے ملنے گاؤں آیا تھا۔ ایک دن وہ گاؤں کی گلیوں میں گھومتے گھومتے اسی باغ میں جا نکلا، جہاں رمشا گلابوں کے درمیان بیٹھی تھی۔ "معذرت، کیا یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟" احمد نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔ رمشا نے چونک کر سر اٹھایا، پھر مسکرا کر بولی، "یہ باغ سب کا ہے، بیٹھ جائیے۔" کچھ دیر خاموشی رہی۔ دونوں اپنے اپنے خیالات میں گم تھے۔ احمد نے ہمت کر کے پوچھا، "آپ کون سی کتاب پڑھ رہی ہیں؟" "فیض کی شاعری۔" رمشا نے جواب دیا اور ایک شعر پڑھا: "محبت اب نہیں ہوگی، یہ کچھ دن بعد میں ہوگی..." احمد کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آ گئی۔ "خوبصورت انتخاب ہے!" یہ پہلا م...

محبت کے رنگ

Image
 محبت کے رنگ علی ایک سادہ مگر دلکش نوجوان تھا، جو لاہور کی ایک یونیورسٹی میں انجینئرنگ کا طالبعلم تھا۔ اس کی دنیا کتابوں اور خوابوں میں بسی تھی، جہاں محبت کے لئے کوئی خاص جگہ نہ تھی۔ وہ سمجھتا تھا کہ عشق صرف شاعری میں اچھا لگتا ہے، عملی زندگی میں نہیں۔ پھر ایک دن یونیورسٹی کی لائبریری میں اس کی ملاقات زینب سے ہوئی۔ زینب اردو ادب کی طالبہ تھی، نرم لہجے اور گہری آنکھوں والی لڑکی، جس کے خیالات میں گہرائی تھی اور مسکراہٹ میں معصومیت۔ وہ علی سے بالکل مختلف تھی، مگر شاید یہی فرق ان دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آیا۔ شروع میں علی نے زینب کو صرف ایک عام دوست سمجھا، مگر جوں جوں وہ اس سے بات کرتا گیا، اس کا دل کسی انجان کشش میں الجھتا گیا۔ زینب کی شاعری، اس کے خیالات اور زندگی کے بارے میں اس کی منفرد سوچ علی کو حیران کر دیتی۔ وہ پہلی بار کسی لڑکی سے متاثر ہوا تھا، مگر اسے اپنی جذباتی کیفیت پر شک تھا۔ دوسری طرف زینب کو علی کی سادگی اور سنجیدگی پسند تھی۔ وہ علی کے ساتھ گفتگو میں ایک خاص سکون محسوس کرتی تھی۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ علی کو محبت کا احساس نہیں، لیکن وہ وقت کے ساتھ خود اپنے جذبات سمجھ ج...

پہلی محبت کا موسم

 عنوان: پہلی محبت کا موسم نیہا ہمیشہ سے کتابوں کی دنیا میں گم رہتی تھی۔ اسے کہانیوں میں کھو جانا پسند تھا، خاص طور پر محبت کی کہانیاں۔ لیکن اسے کبھی نہیں لگا تھا کہ اس کی اپنی زندگی میں بھی کوئی ایسی کہانی جنم لے سکتی ہے۔ یہ خزاں کی ایک شام تھی، جب وہ اپنی پسندیدہ لائبریری کے کونے میں بیٹھی ہوئی تھی۔ کھڑکی سے سنہری پتوں کا گرنا ایک دلکش منظر پیش کر رہا تھا۔ وہ ایک رومانوی ناول میں مگن تھی جب اچانک کسی نے آہستہ سے کہا، "یہ آپ کا پسندیدہ مصنف ہے؟" نیہا نے چونک کر نظر اٹھائی۔ ایک لمبا، وجیہہ لڑکا اس کے قریب کھڑا تھا، ہاتھ میں بالکل وہی کتاب تھامے جو وہ پڑھ رہی تھی۔ "ہاں، مجھے اس کی تحریر بہت پسند ہے۔" نیہا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔ "یہ حیرت کی بات ہے، کیونکہ یہ میرا بھی پسندیدہ مصنف ہے،" اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور نیہا کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ یوں ان کی پہلی گفتگو شروع ہوئی۔ وقت کا پتہ ہی نہ چلا، اور جب وہ اٹھنے لگی تو لڑکے نے نرمی سے کہا، "میں ریحان ہوں، اور اگر آپ کو برا نہ لگے تو کیا میں دوبارہ آپ سے مل سکتا ہوں؟" نیہا نے جھجکتے...

جدائی

 جدائی ریاض اور ندا کی محبت ان کہانیوں جیسی تھی جو لوگ سن کر یقین نہیں کرتے۔ وہ دونوں بچپن کے ساتھی تھے، ایک ہی گلی میں کھیلتے کودتے بڑے ہوئے، اور جب شعور کی دہلیز پر قدم رکھا، تو ایک دوسرے کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال لگنے لگا۔ مگر قسمت ہمیشہ محبت کرنے والوں کے حق میں نہیں ہوتی۔ ندا کے والد نے اس کا رشتہ اپنے ایک عزیز کے بیٹے سے طے کر دیا تھا۔ ندا نے بہت مزاحمت کی، آنسو بہائے، مگر والدین کی ضد کے آگے مجبور ہوگئی۔ دوسری طرف ریاض کی دنیا اندھیر ہوگئی۔ اس نے ندا کو روکنے کی لاکھ کوشش کی، مگر وہ بےبس تھی۔ ندا کی شادی کے بعد، ریاض کی زندگی ایک خالی کاغذ کی طرح تھی، جس پر کوئی رنگ باقی نہیں رہا تھا۔ وہ اکثر ان جگہوں پر جا کر بیٹھا کرتا جہاں وہ دونوں گھنٹوں باتیں کیا کرتے تھے۔ کلر کہار کی پہاڑیوں پر بیٹھ کر وہ ندا کی یادوں میں کھو جاتا، جہاں کبھی وہ دونوں خواب سجایا کرتے تھے۔ ندا بھی اپنے نئے گھر میں خوش نہیں تھی۔ اس کا شوہر اس کی باتوں کو سمجھنے سے قاصر تھا، اور وہ خود کو تنہا محسوس کرتی تھی۔ کئی بار اس نے سوچا کہ ریاض سے بات کرے، مگر رسم و رواج اور خاندان کی عزت نے اس کے قدم روک دیے۔...

محبت کی کہانی

 محبت کی کہانی: "ایک خط جو کبھی نہ پہنچ سکا" یہ کہانی آریان اور حیا کی ہے، دو ایسے دل جو ایک دوسرے کے لیے دھڑکتے تھے، مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ آریان ایک حساس اور خاموش طبع لڑکا تھا، جو ہمیشہ اپنی دنیا میں کھویا رہتا۔ حیا شوخ، چنچل اور زندگی سے بھرپور لڑکی تھی۔ وہ دونوں یونیورسٹی میں ایک دوسرے سے ملے، اور آہستہ آہستہ ان کی دوستی ایک ان کہی محبت میں بدل گئی۔ لیکن آریان کبھی بھی اپنے جذبات کا اظہار نہ کر سکا۔ وہ سوچتا، "کیا اگر میں نے کہہ دیا، اور اس نے انکار کر دیا تو؟ کیا اگر میں نے کہہ دیا اور ہماری دوستی بھی ختم ہو گئی؟" وقت گزرتا گیا، یونیورسٹی کے آخری دن قریب آ گئے۔ آریان نے آخرکار حیا کے لیے ایک خط لکھا— ایک ایسا خط جس میں اس نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا تھا۔ لیکن وہ ہمت نہ کر سکا کہ اسے حیا کو دے سکے۔ اس نے سوچا کہ وہ اگلے دن دے دے گا۔ لیکن قسمت نے ایک نیا موڑ لیا… اگلے دن، حیا اچانک بیرون ملک جانے والی تھی، اس کی شادی طے ہو چکی تھی! آریان کے لیے یہ خبر کسی بجلی کے جھٹکے سے کم نہ تھی۔ اس نے جلدی سے خط نکالا، لیکن تب تک حیا جا چکی تھی… وہ خط، جو آریان نے ...