علیزہ اور آفتاب – ایک ادھوری محبت
علیزہ ہمیشہ سے ایک سنجیدہ اور محتاط لڑکی تھی۔ اسے بچپن سے سکھایا گیا تھا کہ جذبات پر قابو رکھنا ضروری ہوتا ہے، کیونکہ محبت ہمیشہ خوشیوں کا وعدہ نہیں کرتی۔ وہ کتابوں میں کھوئی رہتی، تنہائی میں خوش رہتی، اور زندگی کو ایک منصوبے کے تحت گزارنے کی قائل تھی۔
دوسری طرف، آفتاب زندگی کا مکمل الٹ تھا۔ وہ کھل کر ہنسنے، دل سے جینے اور ہر لمحے میں خوشی تلاش کرنے والا شخص تھا۔ اس کی زندگی کا ایک ہی اصول تھا: "محبت ہی اصل حقیقت ہے، باقی سب بہانے ہیں۔" وہ لوگوں سے آسانی سے گھل مل جاتا تھا، ہر کسی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے والا شخص تھا۔
پہلی ملاقات
علیزہ اور آفتاب کی ملاقات ایک سیمینار میں ہوئی تھی۔ علیزہ اپنی کمپنی کی نمائندگی کر رہی تھی اور آفتاب ایک نوجوان کاروباری شخصیت کے طور پر مدعو تھا۔ علیزہ نے جب پہلی بار آفتاب کو بولتے سنا تو وہ حیران رہ گئی۔ آفتاب کے الفاظ میں جوش تھا، اعتماد تھا اور ایک الگ سی روشنی تھی۔
سیمینار کے بعد، آفتاب نے علیزہ سے رسمی گفتگو کی۔ علیزہ نے مختصر جواب دیے اور جلدی سے اپنی جگہ پر لوٹ آئی۔ مگر آفتاب نے اس کی آنکھوں میں چھپی کہانی دیکھ لی تھی۔ وہ جان چکا تھا کہ علیزہ ایک ایسی شخصیت ہے جو جذبات سے دور بھاگنے کی کوشش کرتی ہے، مگر اندر سے وہ بھی چاہتی ہے کہ کوئی اسے سمجھے۔
آہستہ آہستہ قربت
وقت گزرتا گیا، اور ایک مشترکہ دوست کے ذریعے آفتاب نے علیزہ سے دوستی کر لی۔ علیزہ ابتدا میں محتاط رہی، مگر آفتاب کی خوش مزاجی اور خلوص نے آہستہ آہستہ اس کے دل کے بند دروازے پر دستک دینی شروع کر دی۔
کئی بار وہ دونوں کام کے بعد کسی کیفے میں ملتے، علیزہ اپنی پسندیدہ کافی پیتی اور آفتاب چائے کا شوقین تھا۔ آفتاب باتوں باتوں میں محبت اور زندگی پر فلسفہ جھاڑتا، اور علیزہ مسکراتی مگر خاموش رہتی۔
ایک دن آفتاب نے ہنستے ہوئے کہا، "علیزہ، تم محبت سے اتنی دور کیوں بھاگتی ہو؟"
علیزہ نے نظریں چراتے ہوئے جواب دیا، "محبت ہمیشہ خوشیاں نہیں دیتی، بعض اوقات یہ دکھ بھی دیتی ہے۔"
آفتاب نے سنجیدگی سے کہا، "مگر محبت کے بغیر زندگی ادھوری ہوتی ہے۔ خوشی اور دکھ تو ہر رشتے کا حصہ ہیں، مگر محبت کے بغیر جینا… وہ تو سانس لینے جیسا ہے بغیر زندگی کے!"
اظہارِ محبت
یہ بات علیزہ کے دل میں گونجتی رہی، مگر وہ خود کو روکنے کی کوشش کرتی رہی۔ اسے لگتا تھا کہ اگر اس نے اپنے دل کو کمزور پڑنے دیا تو وہ ٹوٹ جائے گی۔ مگر آفتاب کو وہ جتنی نظر انداز کرنے کی کوشش کرتی، آفتاب اتنا ہی قریب آتا گیا۔
پھر ایک دن، آفتاب نے ہمت کر کے کہہ دیا، "علیزہ، میں تم سے محبت کرتا ہوں!"
علیزہ چونک گئی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ لمحہ کبھی نہ کبھی آنا تھا، مگر وہ اس کے لیے تیار نہیں تھی۔ وہ خاموش رہی، نظریں جھکا لیں، اور آفتاب کے چہرے پر ایک ادھوری مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
"میں تمہیں وقت دیتا ہوں، مگر میری محبت کا انتظار نہ کرو، کیونکہ محبت انتظار نہیں کرتی۔" یہ کہہ کر آفتاب وہاں سے چلا گیا، مگر اس کی آنکھوں میں امید کی روشنی تھی۔
فیصلے میں دیر
علیزہ نے کئی دن تک خود سے جنگ لڑی۔ اس کا دل آفتاب کی محبت کو قبول کرنا چاہتا تھا، مگر دماغ اسے روکتا رہا۔ آخرکار، جب اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنی محبت کا اعتراف کرے گی، تو بہت دیر ہو چکی تھی۔
آفتاب کی نوکری کا تبادلہ ہو چکا تھا، اور وہ ایک اور شہر جا چکا تھا۔ علیزہ نے جب سنا تو اس کے دل میں ایک عجیب سا درد اٹھا۔ اس نے فوراً آفتاب کو فون کیا، مگر دیر ہو چکی تھی۔ آفتاب نے ہلکی سی آواز میں کہا، "علیزہ، میں نے تمہیں ہمیشہ اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہا، مگر محبت تبھی خوبصورت ہوتی ہے جب دونوں لوگ اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔ شاید ہمارا وقت نہیں آیا تھا…"
ادھوری محبت کی تکلیف
علیزہ کے دل میں ایک شدید خلاء پیدا ہو گیا۔ وہ سمجھ گئی کہ محبت سے بھاگنا ممکن نہیں، مگر بعض اوقات، جب ہم فیصلہ لینے میں دیر کر دیتے ہیں، تو قسمت ہمارے لیے دوسرا راستہ چن لیتی ہے۔
علیزہ روز اسی کیفے میں بیٹھتی جہاں وہ آفتاب سے ملا کرتی تھی، مگر اس کی کرسی ہمیشہ خالی رہتی۔ وہ جان چکی تھی کہ محبت سے ڈرنے کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ جب آپ اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، تب محبت ہاتھ سے نکل چکی ہوتی ہے۔
سبق
"محبت خوشی اور تکلیف دونوں کا مجموعہ ہوتی ہے، مگر جو لوگ اسے قبول کرنے میں دیر کر دیتے ہیں،
وہ ہمیشہ ادھوری یادوں کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔"
Comments
Post a Comment