مل کے بھی نہ مل پائے

 فیصل اور رُباب – مل کر بھی نہ مل سکے


پہلا باب – دو دنیائیں


فیصل حافظ آباد کا رہنے والا تھا، ایک چھوٹے سے کاروباری گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے والد دودھ کا کاروبار کرتے تھے، اور فیصل بھی ان کی مدد کرتا تھا۔ لیکن اس کے خواب اس چھوٹے سے شہر سے کہیں آگے تھے۔ وہ کچھ بڑا کرنا چاہتا تھا، خود کو منوانا چاہتا تھا۔ اسی لیے جب اسے اسلام آباد کی ایک مشہور یونیورسٹی میں اسکالرشپ ملی، تو اس کے لیے یہ کسی خواب سے کم نہ تھا۔


دوسری طرف، رُباب اسلام آباد کے قریب واقع گاؤں سیدپور میں رہتی تھی۔ سیدپور ایک قدیم گاؤں تھا، جہاں وقت کی رفتار دھیمی تھی، جہاں درختوں کی سرگوشیاں رات کی خاموشی میں کہانیاں سناتی تھیں۔ رُباب کا تعلق ایک قدامت پسند خاندان سے تھا، جہاں لڑکیوں کے خوابوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ لیکن اس کے والد نے اس کی تعلیم کی حمایت کی، اور وہ اسلام آباد کی اسی یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگئی جہاں فیصل آیا تھا۔


دوسرا باب – پہلی ملاقات


فیصل اور رُباب کی پہلی ملاقات یونیورسٹی کی لائبریری میں ہوئی۔ فیصل ایک نایاب کتاب ڈھونڈ رہا تھا جو رُباب پہلے ہی لے چکی تھی۔


"کیا یہ کتاب ابھی مکمل پڑھنی ہے، یا میں اسے کچھ دیر کے لیے لے سکتا ہوں؟" فیصل نے نرمی سے پوچھا۔


رُباب نے اسے دیکھا، مسکرائی، اور کتاب آگے بڑھاتے ہوئے بولی، "یہ میری پسندیدہ کتاب ہے، لیکن میں اسے بانٹنے کے لیے تیار ہوں۔"


یہ ایک معمولی ملاقات تھی، مگر یہی وہ لمحہ تھا جہاں سے ایک خاص تعلق نے جنم لیا۔ کلاسز، گروپ اسائنمنٹس، اور بحث و مباحثوں کے دوران وہ ایک دوسرے کے قریب آتے گئے۔ فیصل کی حقیقت پسندی اور رُباب کی تخیلاتی سوچ ایک دوسرے کے لیے مکمل تھیں۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے مزاج کو مکمل کرتے تھے۔


تیسرا باب – بے نام رشتہ


وقت کے ساتھ ان کا ساتھ ایک خاص رنگ اختیار کر گیا۔ وہ ایک دوسرے کی عادت بن گئے، مگر کسی نے بھی محبت کا اعتراف نہ کیا۔ فیصل جانتا تھا کہ اس کی زندگی کا راستہ سیدھا نہیں، اسے اپنے خاندان کی ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔ وہ زیادہ جذبات میں بہنے والا شخص نہیں تھا۔ رُباب بھی یہ جانتی تھی کہ اس کا تعلق ایک ایسے ماحول سے ہے جہاں محبت کے فیصلے جذبات سے زیادہ روایات کے تابع ہوتے ہیں۔


ایک دن یونیورسٹی کے باغ میں بیٹھے، رُباب نے ایک سوال کیا، "فیصل، اگر زندگی ہمیں دو الگ راستوں پر لے جائے تو کیا ہوگا؟"


فیصل نے ایک لمحے کے لیے خاموشی اختیار کی، پھر کہا، "شاید ہم صرف ایک دوسرے کی یادوں میں زندہ رہ جائیں گے۔"


یہ وہ لمحہ تھا جب دونوں کو احساس ہوا کہ وہ ایک دوسرے کے لیے کتنے اہم ہیں، مگر پھر بھی ایک دوسرے کے نہیں ہو سکتے۔


چوتھا باب – جدائی کی راہیں


گریجویشن کے بعد فیصل کو لاہور میں ایک اچھی نوکری مل گئی، اور رُباب کو سیدپور واپس جانا پڑا۔ ان کے درمیان فاصلہ بڑھنے لگا، مگر جذبات کم نہ ہوئے۔ وہ کبھی کبھار میسج کرتے، کبھی کال پر بات ہو جاتی، مگر وقت کے ساتھ رابطہ کم ہوتا چلا گیا۔


کچھ مہینے بعد رُباب کے گھر والوں نے اس کی شادی طے کر دی۔ اسے ایک اچھے خاندان میں رشتہ ملا تھا، اور وہ جانتی تھی کہ انکار ممکن نہیں۔ فیصل کو یہ خبر ملی، لیکن وہ کچھ نہ کر سکا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی زندگی میں بھی خاندان کی ذمہ داریاں زیادہ تھیں، اور وہ محبت کے نام پر خود غرض نہیں بن سکتا تھا۔


پانچواں باب – مل کر بھی نہ مل سکے


کئی سال بعد، فیصل ایک کاروباری میٹنگ کے سلسلے میں اسلام آباد آیا۔ وہ سیدپور جانے کے لیے بےچین تھا، شاید ایک بار رُباب سے مل سکے۔ وہ گاؤں پہنچا، وہی پرانے راستے، وہی درخت، وہی مندر کے قریب بہتا چشمہ، سب کچھ ویسا ہی تھا، مگر رُباب کہیں نظر نہ آئی۔


اس نے ایک چھوٹے بچے سے پوچھا، "بیٹا، یہاں رُباب نام کی ایک لڑکی رہتی تھی، تم جانتے ہو وہ کہاں ہے؟"


بچے نے معصومیت سے جواب دیا، "وہ تو لاہور میں کسی اسکول میں پڑھاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ زندگی میں کچھ خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔"


فیصل مسکرا دیا۔ شاید زندگی نے ان کے لیے کچھ اور لکھا تھا۔ وہ مل کر بھی نہ مل سکے، لیکن ایک دوسرے کی یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔



---


"کچھ کہانیاں مکمل ہونے کے لیے نہیں 


بلکہ یادگار بننے کے لیے لکھی جاتی ہیں..."


Comments

Popular posts from this blog

Title: WhatsApp ke 10 Zabardast Tips & Tricks (2025) – Jo Har User Ko Maloom Hone Chahiye

محبت کی کہانی