عنوان: بےنام خط
خاموشی کا کمرہ
سدرہ جب سے اپنی نانی اماں کے انتقال کے بعد گاؤں آئی تھی، اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے وقت ایک بوجھ بن گیا ہو۔ وہ پرانی حویلی جس میں وہ بچپن کی چند یادیں چھوڑ آئی تھی، اب اُسے اجنبی لگ رہی تھی۔ ہر دیوار پر وقت کی دھول جمی ہوئی تھی، ہر درخت جیسے کسی راز سے واقف ہو۔ نانی اماں کا کمرہ وہی تھا، جیسا ہمیشہ رہا—مگر اس بار وہ خالی تھا۔
اُس دن بارش ہو رہی تھی۔ سرد ہوا کے تھپیڑے دیواروں سے سر پٹخ رہے تھے۔ سدرہ نے پرانے صندوق کو کھولا جو نانی اماں کے پلنگ کے نیچے رکھا تھا۔ اس میں پرانی چادریں، خوشبو کے بوتلیں، اور چند تصاویر کے ساتھ ایک زرد لفافہ بھی تھا۔ لفافہ پر کچھ نہیں لکھا تھا سوائے الفاظ کے:
"میرے دل کے قریب"
لفظوں میں عجیب سی لرزش تھی، جیسے ہاتھ کانپ رہے ہوں، یا دل زخمی ہو۔ سدرہ نے لفافہ کھولا، اندر ایک خط تھا۔ ہاتھ سے لکھا گیا، پرانا، سادہ سا۔
> "میری جان،
جب تم یہ خط پڑھ رہی ہوگی، شاید میں اس دنیا میں نہ ہوں۔
میں نے تمہیں برسوں چاہا، دعاؤں میں مانگا، خوابوں میں سجایا۔
میں نے تمہیں دور سے دیکھا، مگر قریب آنے کی ہمت نہ ہوئی۔
وقت کا خوف تھا یا معاشرے کی زنجیر؟ شاید دونوں۔
تمہیں معلوم بھی نہ ہوا، اور میں تمہاری آنکھوں میں زندگی بھر چھپا رہا۔
تم خوش رہو، تمہاری مسکراہٹ میری آخری دعا ہے۔
— تمہارا بےنام چاہنے والا"
سدرہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ دل ایک انجانی چبھن سے بھر گیا۔ یہ کون تھا؟ کس نے اتنے برسوں اُس سے چھپ کر محبت کی؟ اور کیوں؟
دوسرا باب: پرانی ڈائری
اگلے دن صبح سویرے سدرہ دوبارہ نانی کے کمرے میں گئی۔ اُس نے کمرے کی الماری کھولی۔ پرانے مٹیالے صفحات میں لپٹی ایک ڈائری ہاتھ آئی۔ نانی اماں کی لکھائی پہچاننا سدرہ کے لیے مشکل نہ تھا۔ ہر صفحہ کسی نہ کسی دن کی روداد تھا۔
ایک صفحے پر لکھا تھا:
> "آج پھر وہ آیا۔ بیٹھک کے باہر کھڑا رہا۔ کچھ نہ بولا، صرف دیکھا۔
وہ برسوں سے آ رہا ہے، خاموشی سے۔
میں جانتی ہوں وہ کیا چاہتا ہے، مگر کچھ باتیں زبان سے نکالنے سے ٹوٹ جاتی ہیں۔"
سدرہ کو سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ خط کسی اجنبی کا نہیں، بلکہ نانی اماں کی زندگی سے جڑا ہوا تھا—کسی ایسے شخص کا جس نے عمر بھر اُن سے محبت کی، مگر کبھی اظہار نہ کر سکا۔ لیکن نانی نے کبھی اس بات کا ذکر کیوں نہ کیا؟ کس بات کا خوف تھا؟
تیسرا باب: راز کی پرتیں
سدرہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اس راز تک پہنچ کر رہے گی۔ گاؤں کے پرانے مکتبے میں جا کر اُس نے پرانے رجسٹرز کھنگالے۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ نانی اماں کے وقت میں کون لوگ اُن کے خاندان کے قریب تھے۔
ایک پرانے استاد، جنہیں سب "بابا جی" کہتے تھے، اب بھی زندہ تھے—نابینا، مگر حافظہ تیز۔ سدرہ اُن کے پاس گئی۔
"بابا جی، آپ نانی اماں کو جانتے تھے نا؟"
"بیٹی، تم سلیم کی بیٹی ہو؟ آمنہ کی نواسی؟"
"جی بابا جی۔ مجھے ایک بات پوچھنی ہے… کیا کوئی ایسا شخص تھا جو نانی کو… بس، خاموشی سے چاہتا ہو؟"
بابا جی خاموش ہو گئے۔ ان کی آنکھوں کے گرد وقت کی جھریاں گہری ہو گئیں۔
"تھا، بیٹی… ایک فقیر، نام تھا اُس کا ارشد۔ روز شام کو درخت کے نیچے آ بیٹھتا، نانی کی بیٹھک کے سامنے۔ کبھی مانگا کچھ نہیں، کبھی بولا بھی نہیں۔ لوگ مذاق اُڑاتے، کہتے 'یہ پاگل ہے'، مگر اُس کی آنکھوں میں صرف ایک عورت کا عکس تھا۔"
سدرہ کا دل دھک سے رہ گیا۔ کیا ارشد وہی شخص تھا؟ اور وہ اب کہاں تھا؟
چوتھا باب: ملاقات
سدرہ نے گاؤں کے سب سے پرانے قبرستان کا رخ کیا۔ وہاں ایک پرانی، ٹوٹی ہوئی قبر تھی جس پر صرف اتنا لکھا تھا:
"ارشد – جو نام کا نہ تھا، پر وفا کا نشان رہا"
سدرہ دیر تک قبر کے پاس بیٹھی رہی۔ ہوا ساکن تھی، جیسے وقت تھم گیا ہو۔
اس کے بعد وہ ہر شام نانی کی بیٹھک کے پاس بیٹھنے لگی۔ وہاں ہوا میں اب بھی ایک خاموشی رقص کرتی تھی، جیسے کسی کی سانسیں ادھوری رہ گئی ہوں۔
پانچواں باب: نئی زندگی
کئی ماہ گزر گئے۔ سدرہ نے نانی اماں کی پرانی ڈائری کو ایک کتاب کی شکل میں شائع کیا:
"خاموش محبت کی داستان"
کتاب مقبول ہوئی، مگر سدرہ کے لیے یہ صرف ایک تخلیق نہ تھی—یہ اُس کی نانی، ارشد، اور ایک چھپی ہوئی محبت کی گواہی تھی۔
لوگ اب اُس کہانی کو جانتے تھے، جو کبھی فقط ایک "بےنام خط" تھی۔
Comments
Post a Comment