پہلی محبت (ایک مکمل کہانی)
رہویں جماعت کی ایک سرد مگر دھوپ بھری صبح تھی۔ لاہور کے ایک پرانے، مگر وقار سے بھرپور کالج کی راہداریوں میں نوجوان قدموں کی چاپ گونج رہی تھی۔ وہ جن کی آنکھوں میں مستقبل کے خواب اور دلوں میں کئی ان کہی خواہشیں تھیں۔ انہی میں ایک تھا علی، کتابوں کا شوقین، خاموش طبع، مگر گہری آنکھوں والا لڑکا، جو اکثر تنہا نظر آتا۔
علی کا دل لفظوں سے بندھا ہوا تھا۔ وہ شاعری لکھتا، تنہائی سے دوستی رکھتا، اور کسی خاص لمحے کے انتظار میں رہتا— شاید ایک ایسے لمحے کا جو زندگی بدل دے۔
وہ لمحہ تب آیا، جب پہلی بار وہ زہرہ سے ملا۔
اردو ادب کی کلاس کا پہلا دن تھا۔ علی کمرے کے پچھلے بینچ پر بیٹھا تھا، جب زہرہ کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کی آمد خاموش تھی، لیکن ماحول بدل گیا۔ سفید دوپٹہ، نیلی قمیص، اور کتابوں سے بھرا بستہ۔ اس کے چہرے پر کچھ ایسی سادگی تھی جو دل کو چھو جائے۔ علی کی نگاہیں جیسے رک گئیں۔ اس نے آنکھوں سے خود کو سمجھایا کہ یہ محض ایک ہم جماعت ہے، لیکن دل نے وہیں پہلی بار شکست کھائی۔
دن گزرتے گئے۔ وہ ایک ہی کلاس میں پڑھتے، پروجیکٹس پر ساتھ کام کرتے۔ زہرہ، علی کی شاعری کو سمجھتی تھی۔ وہ اس کی آنکھوں کی خاموشی کو پڑھ سکتی تھی۔ علی، جس نے کبھی کسی لڑکی سے نظریں بھی نہ ملائیں تھیں، اب زہرہ کی آواز سنتے ہی دل کی دھڑکن گننے لگتا۔
محبت کا وہ ابتدائی دور عجیب ہوتا ہے۔ ہر ملاقات میں کچھ نہ کچھ کہنے کی خواہش، اور ہر خاموشی میں سب کچھ کہہ دینے کی امید۔ علی چاہتا تھا کہ زہرہ سے اپنے دل کی بات کہے، مگر ڈرتا تھا۔ ڈرتا تھا کہ وہ انکار نہ کر دے، یا بدگمان نہ ہو جائے۔
آخرکار، ایک دن اس نے فیصلہ کر لیا۔
کالج کا آخری دن قریب تھا۔ موسم بھی جیسے دل کے حال سے ہم آہنگ ہو گیا تھا— ہلکی پھوار، تیز خوشبو، اور آسمان پر چھائے گہرے بادل۔ علی نے زہرہ کو کالج کے پرانے لائبریری باغ میں بلایا۔ زہرہ آئی، تھوڑی حیران، مگر پرسکون۔
علی کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا کاغذ تھا۔ وہ چند لمحے خاموش رہا، پھر دھیرے سے وہ پرچی زہرہ کو دی۔ اس پر لکھا تھا:
"تم میرے خیال کی پہلی نظم ہو، میری تنہائی کا واحد رنگ۔ کیا تم میری ہو سکتی ہو؟"
زہرہ نے پرچی کو پڑھا، پھر علی کو دیکھا۔ وہ کچھ لمحے خاموش رہی، پھر مسکرا کر بولی:
"میں کب سے تمہارے لفظوں میں رہتی ہوں، علی۔"
وہ لمحہ ان دونوں کے لیے دنیا کی سب سے خوبصورت گھڑی بن گیا۔
پھر کچھ ماہ گزرے۔ وقت جیسے پر لگا کر اڑ گیا۔ لیکن محبت ہمیشہ آسان نہیں ہوتی۔ زہرہ کے گھر والوں کو علی کا "بس ایک طالبعلم" ہونا گوارا نہ ہوا۔ انہوں نے زبردستی اس کا رشتہ ایک دوسرے خاندان میں طے کر دیا۔ زہرہ نے علی سے کہا:
"میں تمہیں نہیں چھوڑنا چاہتی، مگر میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔"
علی نے صرف اتنا کہا:
"اگر تم خوش ہو، تو میری محبت مکمل ہے۔"
زہرہ چلی گئی۔ شادی ہو گئی۔ علی تنہا رہ گیا۔ لیکن اس نے اس جدائی کو اپنی کمزوری نہیں، اپنی طاقت بنا لیا۔ وہ شاعر بن گیا۔ اس کے اشعار میں ایک چہرہ بار بار ابھرتا تھا— زہرہ کا۔ وہ ہر محفل میں اپنی غزل پڑھتا، اور ہر غزل کے آخر میں صرف ایک نام لیتا: "میری پہلی اور آخری محبت – زہرہ"۔
لوگ پوچھتے، "کیا وہ تمہاری ہو سکی؟"
وہ ہنستا، اور کہتا، "نہیں، لیکن محبت میں صرف پانا ضروری نہیں، نبھانا زیادہ معنی رکھتا ہے۔"
کئی سال بعد، ایک مشاعرے میں، ہجوم کے بیچ ایک چہرہ دکھائی دیا۔ زہرہ تھی۔ آنکھوں میں نمی، لبوں پر مسکراہٹ، اور ہاتھ میں وہی پرانا کاغذ۔
علی نے اس سے کچھ نہیں پوچھا، صرف ایک شعر سنایا:
"بچھڑ کے بھی تیرا چہرہ دل کی د
یوار پر ہے،
پہلی محبت کبھی پرانی نہیں ہوتی۔"
Comments
Post a Comment