منے کا خواب
اسلام علیکم کیسے ہیں آپ لوگ امید کرتا ہوں آپ سب ٹھیک خرو خریت سے ہوں گے
آئین اب آپ منا کی سچی سٹوری سناتا ہوں
حصہ 1: منے کی دنیا
منا ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا، جہاں کچے مکان، کھیت اور تنگ گلیاں تھیں۔ اس کا اصل نام حسن تھا، مگر سب اسے منا کہتے تھے۔ وہ صرف سات سال کا تھا، مگر اس کی آنکھوں میں چمک تھی، جیسے کچھ بڑا کرنے کی خواہش چھپی ہو۔ اس کے ابو ایک مستری تھے، جو دن بھر اینٹیں جوڑتے، دیواریں کھڑی کرتے، اور ہاتھوں میں پڑے چھالوں کو دیکھ کر صرف مسکرا دیتے۔ امی گھر کے کاموں میں مصروف رہتیں، کبھی آٹا گوندھتیں، کبھی پانی بھرتیں، اور کبھی سلائی کرکے کچھ پیسے کما لیتیں۔
منا کو پڑھنے کا بہت شوق تھا، مگر اسکول میں جانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ بھی کتابیں لے کر اسکول جائے، بستہ پیٹھ پر ہو، اور استاد اسے بھی سبق پڑھائیں۔ مگر حقیقت کچھ اور تھی۔ وہ زیادہ تر دن گھر کے باہر گلی میں گزارتا، جہاں دوسرے بچے کھیلتے کودتے اور کبھی کبھی جھگڑتے بھی۔ منا کے پاس کھلونے نہیں تھے، مگر اس کے پاس کچھ خاص تھا—ایک خواب۔
حصہ 2: ایک خاص دن
ایک دن منا اپنے گھر کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ مٹی میں کچھ لکیریں کھینچ رہا تھا، جیسے کوئی خاکہ بنا رہا ہو۔ اس کے ہاتھ میں ایک ٹوٹی ہوئی پنسل تھی، جو اسے کہیں سے ملی تھی۔ وہ بڑی مہارت سے زمین پر ایک آدمی کی تصویر بنا رہا تھا، جس نے ہاتھ میں ایک کتاب پکڑی ہوئی تھی۔
یہ دیکھ کر ایک بزرگ وہاں آ رکے۔ وہ سفید داڑھی والے نرم دل انسان تھے۔ "بیٹا، یہ کیا بنا رہے ہو؟" انہوں نے پیار سے پوچھا۔
منا نے سر اٹھایا اور مسکرا کر بولا، "یہ ایک استاد ہیں، جو مجھے پڑھا رہے ہیں۔"
بزرگ حیران ہوئے، "اچھا! تو تم پڑھنا چاہتے ہو؟"
منا نے زور سے سر ہلایا، "ہاں، مگر میرے ابو کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ مجھے اسکول بھیج سکیں۔"
بزرگ نے جیب سے ایک نوٹ نکالا اور منے کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ "یہ لو، یہ تمہارے خواب کی پہلی اینٹ ہے۔"
منا نے وہ نوٹ حیرانی سے دیکھا، یہ پچاس روپے تھے! اس نے جلدی سے پیسے مٹھی میں دبا لیے اور دوڑتا ہوا گھر چلا گیا۔
حصہ 3: پہلی کمائی
منا نے وہ پیسے اپنی امی کو دیے۔ پہلے تو امی نے حیرانی سے دیکھا، پھر غصے سے بولیں، "یہ کہاں سے لائے؟"
"امی، وہ بابا جی نے دیے ہیں! میں نے ان کے ساتھ کوئی غلط کام نہیں کیا، میں نے صرف ایک تصویر بنائی تھی!" منا نے جلدی جلدی وضاحت دی۔
امی نے گہری سانس لی اور منا کے سر پر ہاتھ رکھا۔ "بیٹا، کبھی کسی کا دیا ہوا پیسہ یوں مت لو، جب تک تم نے خود محنت نہ کی ہو۔"
منا نے سوچا، "اگر میں تصویریں بنا کر پیسے کما سکتا ہوں، تو میں محنت کیوں نہ کروں؟"
اگلے دن منا نے گلی کے نکڑ پر بیٹھ کر لوگوں کے خاکے بنانے شروع کیے۔ شروع میں سب ہنستے رہے، مگر جب لوگوں نے اس کی مہارت دیکھی تو حیران رہ گئے۔
"یہ تو واقعی خوبصورت بناتا ہے!" ایک آدمی نے کہا اور منا کو دس روپے دیے۔
"میری بھی تصویر بناؤ!" دوسرے نے کہا۔
دیکھتے ہی دیکھتے منا کے پاس دن کے آخر میں سو روپے ہو چکے تھے!
حصہ 4: پہلا خواب پورا ہوا
کچھ دنوں تک منا روز ایسے ہی تصویریں بناتا رہا، اور پھر ایک دن اس کے پاس اتنے پیسے ہوگئے کہ وہ اسکول کا داخلہ فیس دے سکتا تھا۔ اس نے ابو سے کہا، "ابو، میں اسکول جانا چاہتا ہوں!"
ابو پہلے حیران ہوئے، مگر جب منا نے اپنی کمائی کے پیسے دکھائے، تو ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔
"بیٹا، تم نے واقعی کمال کر دیا!"
اور یوں منا کا پہلا خواب پورا ہو گیا—وہ اسکول جانے لگا!
حصہ 5: دوسرا خواب
منا اسکول تو جانے لگا، مگر اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ اور آگے بڑھے۔ ایک دن اس نے خواب دیکھا کہ وہ ایک بڑا مصور بن چکا ہے، اس کی تصویریں بڑے بڑے شہروں میں نمائش کے لیے لگی ہیں، اور لوگ اس سے آٹوگراف لینے آتے ہیں۔
اس خواب کو سچ کرنے کے لیے منا نے دن رات محنت شروع کر دی۔ وہ اسکول سے آ کر اپنی چھوٹی سی کاپی میں تصویریں بناتا، پرانی کتابوں کے صفحے بھر دیتا، اور جہاں موقع ملتا خاکے بناتا۔
وقت گزرتا گیا، اور منا بڑا ہوتا گیا۔ اس کی مہارت بھی بڑھتی گئی۔ ایک دن گاؤں میں ایک صحافی آیا، جو کہانیوں کی تلاش میں تھا۔ جب اس نے منے کے بارے میں سنا، تو وہ اس سے ملنے آیا۔
"تم اتنے اچھے آرٹسٹ ہو! میں تمہاری کہانی اخبار میں لکھوں گا!" صحافی نے کہا۔
منا کو یقین نہیں آیا، مگر جب اس کی کہانی اخبار میں چھپی، تو پورے ملک میں ہلچل مچ گئی۔ لوگ اس کے فن کے دیوانے ہو گئے، اور اسے ایک بڑے آرٹ اسکول میں اسکالرشپ مل گئی۔
حصہ 6: خوابوں کی تعبیر
کچھ سال بعد، منا وہی بچہ نہیں رہا تھا جو گلی کے نکڑ پر تصویریں بنایا کرتا تھا۔ اب وہ ایک مشہور پینٹر بن چکا تھا، اور اس کی تصویریں ملک کے بڑے بڑے شہروں میں نمائش کے لیے لگنے لگی تھیں۔
ایک دن جب اس کی کامیابی کے چرچے ہر طرف ہو رہے تھے، تو اس نے وہی پچاس روپے کا نوٹ نکالا، جو ایک بزرگ نے اسے دیا تھا۔
"یہ میری کامیابی کی پہلی اینٹ تھی!" منا نے دل میں سوچا اور اپنے اسکول کے باہر ایک فن کی اکیڈمی کھولنے کا فیصلہ کیا، تاکہ دوسرے بچے بھی اپنے خواب پورے کر سکیں۔
اور یوں منا نے نہ صرف اپنا خواب پورا کیا، بلکہ اوروں کے خوابوں کو بھی رنگ دے دیا۔
ختم شد۔
Comments
Post a Comment