جدائی کے آنسو

 

رات کی تاریکی ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔ چاند کی مدھم روشنی کھڑکی سے چھن کر اندر آ رہی تھی، لیکن وہ روشنی بھی کمزور پڑ گئی تھی، جیسے کسی کے غم میں ڈوبی ہو۔ زریاب کھڑکی کے پاس کھڑا تھا، آنکھوں میں ایک سمندر تھا، لیکن آنسو بہنے کی ہمت نہیں کر رہے تھے۔ آج کے بعد وہ روشانے کو کبھی نہیں دیکھ پائے گا، یہ سوچ ہی اس کے دل پر ہتھوڑے برسا رہی تھی۔


روشانے... وہ نام جو کبھی اس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتا تھا، آج اس کے سینے پر بوجھ بن چکا تھا۔ دو سال کی محبت، بے شمار حسین لمحے، بے حساب خواب... سب کچھ ایک پل میں مٹی ہو چکا تھا۔ زریاب نے خود کو مضبوط رکھنے کی بہت کوشش کی، لیکن محبت کی شکست برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا۔


محبت جو بے بسی میں ڈھل گئی


روشانے اور زریاب کی پہلی ملاقات یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔ روشانے کی آنکھوں میں زندگی کی چمک تھی، اور زریاب کی دنیا وہی چمک بن گئی تھی۔ وہ گھنٹوں باتیں کرتے، خواب بُنتے، مستقبل کے حسین رنگوں میں کھو جاتے۔ لیکن محبت صرف دلوں کے درمیان نہیں ہوتی، کبھی کبھی تقدیر اور حالات بھی اس میں دخل دیتے ہیں۔


روشانے کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جہاں عزت، روایات اور خاندان کی مرضی سب سے زیادہ اہم تھی۔ اس کا باپ، حاجی کریم، سخت مزاج آدمی تھا، جس کی نظر میں محبت جیسے جذبات بے معنی تھے۔ جب اسے روشانے اور زریاب کی محبت کا پتا چلا، تو آسمان سر پر اٹھا لیا۔ روشانے نے لاکھ منتیں کیں، آنسو بہائے، ماں کو بیچ میں ڈالا، لیکن حاجی کریم پتھر دل ثابت ہوا۔


آخری ملاقات


زریاب کو آج بھی وہ دن یاد تھا جب روشانے نے اسے آخری بار ملنے کے لیے بلایا تھا۔ وہ پارک کے اسی بینچ پر بیٹھے تھے جہاں کبھی ان کی ہنسی گونجتی تھی، مگر آج ماحول میں ایک عجیب اداسی تھی۔ روشانے نے سر جھکایا ہوا تھا، اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔


"زریاب، ہمیں یہ سب بھولنا ہوگا..." روشانے کی آواز کانپ رہی تھی۔


"روشانے، مت کہو ایسا... ہم کچھ نہ کچھ راستہ نکال سکتے ہیں، میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا!" زریاب نے بے بسی سے کہا۔


روشانے نے دھیرے سے مسکرا کر زریاب کا ہاتھ پکڑا۔ "محبت قربانی مانگتی ہے، اور شاید ہماری محبت کی قربانی یہی ہے کہ ہم الگ ہو جائیں۔"


زریاب کا دل چیخ اٹھا، مگر زبان خاموش رہی۔ روشانے نے ایک آخری بار زریاب کی آنکھوں میں دیکھا، پھر پلٹ کر چلی گئی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ جدائی ہمیشہ کے لیے ہوگی۔


وقت کا امتحان


کئی مہینے گزر گئے، روشانے کی شادی ہو گئی، اور وہ کسی اور شہر چلی گئی۔ زریاب نے خود کو کام میں مصروف کر لیا، مگر دل کے زخم آسانی سے نہیں بھرتے۔ ہر رات، جب چاند کھڑکی سے جھانکتا، وہ سوچتا کہ روشانے بھی کہیں بیٹھی یہی چاند دیکھ رہی ہوگی؟


زندگی نے زریاب کو بہت کچھ دیا، مگر روشانے کی یادیں کبھی ماند نہ پڑ سکیں۔ بعض محبتیں منزل پر پہنچنے کے لیے نہیں ہوتیں، بلکہ دل میں ہمیشہ کے لیے رہنے کے لیے ہوتی ہیں۔ اور روشانے کی محبت بھی ایسی ہی تھی—زندگی کے کسی نہ کسی کونے میں ہمی


شہ زندہ رہنے والی۔


ختم شد


Comments

Popular posts from this blog

Title: WhatsApp ke 10 Zabardast Tips & Tricks (2025) – Jo Har User Ko Maloom Hone Chahiye

مل کے بھی نہ مل پائے

محبت کی کہانی