سراب ایک حقیقت کے قریب کہانی
سراب – ایک حقیقت کے قریب کہانی
گاؤں کولو تارڑ کی مٹی اور ایک خواب
کولو تارڑ، حافظ آباد کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ یہاں کے لوگ سادہ مگر محنتی تھے۔ زیادہ تر زراعت پر انحصار کرتے تھے۔ گاؤں کی مٹی زرخیز تھی، لیکن یہاں ترقی کے مواقع کم تھے۔
ریحان اسی گاؤں کا ایک عام سا نوجوان تھا۔ اس کے والد کھیتوں میں مزدوری کرتے، اور وہ خود بھی کبھی کبھار ان کے ساتھ ہاتھ بٹاتا تھا۔ لیکن ریحان کے خواب صرف کھیتوں تک محدود نہیں تھے۔ وہ کچھ بڑا کرنا چاہتا تھا، ایسا کچھ جس سے اس کے ماں باپ کو فخر ہو۔
ریحان اکثر سوچتا کہ شہر کی چمکتی روشنیوں میں کہیں نہ کہیں اس کے لیے بھی کوئی موقع ہوگا۔ وہ اکثر لاہور یا فیصل آباد جانے والے مزدوروں کی باتیں سنتا، جو کہتے تھے کہ شہر میں اگر محنت کی جائے تو زندگی سنور سکتی ہے۔
اجنبی کی پیشکش
ایک دن گاؤں میں ایک اجنبی آیا۔ اس کا نام سراج تھا، اور وہ خود کو کسی فیکٹری کا نمائندہ بتا رہا تھا۔ وہ نوجوانوں کو بتا رہا تھا کہ لاہور میں فیکٹری میں کام کا بہترین موقع ہے، اور جو جانا چاہے، اسے رہائش اور کھانے پینے کی سہولت بھی دی جائے گی۔
ریحان کا دل تیز دھڑکنے لگا۔ یہ موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔
"کتنے پیسے ملیں گے؟" ریحان نے پوچھا۔
"شروع میں دس بارہ ہزار، لیکن اگر محنت کی تو اور بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔" سراج نے جواب دیا۔
یہ رقم کم تھی، مگر ریحان نے سوچا کہ شروعات کے لیے ٹھیک ہے۔ اس نے اپنے والدین سے بات کی، مگر وہ راضی نہ ہوئے۔
"بیٹا! گاؤں کی زمین چھوڑ کر جانے والے اکثر یا تو لوٹ کر نہیں آتے یا پھر جب آتے ہیں تو پہلے جیسے نہیں رہتے۔" ماں نے فکرمندی سے کہا۔
"اماں، میں تمہیں اور ابا کو غربت میں نہیں دیکھ سکتا۔ بس کچھ مہینے کام کروں گا، پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
ماں کی آنکھیں نم ہو گئیں، مگر بیٹے کا جذبہ دیکھ کر خاموش ہو گئیں۔
نئی دنیا، نئے چیلنجز
ریحان اور کچھ اور لڑکے سراج کے ساتھ لاہور پہنچے۔ وہ سب حیران تھے۔ اتنے لمبے لمبے پل، بڑی بڑی گاڑیاں، روشنیاں—یہ سب ان کے لیے نیا تھا۔
سراج انہیں ایک پرانی عمارت میں لے گیا، جہاں پہلے سے کچھ اور مزدور رہ رہے تھے۔ وہ سب تھکے ہارے، پریشان چہروں والے لوگ تھے۔
"کل سے کام شروع ہوگا۔ ابھی آرام کرو۔" سراج نے کہا۔
اگلی صبح وہ سب ایک فیکٹری میں پہنچے۔ یہ ایک لوہے کا کارخانہ تھا، جہاں بھاری مشینیں دن رات چلتی تھیں۔ کام مشکل تھا، ماحول سخت، اور سب سے بڑھ کر، پیسے بھی اتنے نہیں مل رہے تھے جتنے سراج نے بتائے تھے۔
پہلے چند دن تو ریحان نے برداشت کیا، لیکن پھر اسے احساس ہوا کہ یہ کام ویسا نہیں تھا جیسا اس نے سوچا تھا۔
چمکدار دھوکہ
ایک دن، فیکٹری سے واپسی پر سراج نے اسے ایک اور پیشکش کی۔
"ریحان، میں نے تم میں صلاحیت دیکھی ہے۔ یہاں مزدوری میں کچھ نہیں رکھا۔ میرے کچھ خاص دوست ہیں، ان کے ساتھ کام کرو تو زیادہ پیسے کماؤ گے، اور محنت بھی کم ہوگی۔"
ریحان نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"بس چھوٹے چھوٹے پارسل پہنچانے ہیں۔ ہر پارسل پر دو ہزار ملیں گے۔"
دو ہزار سن کر ریحان کے دل میں لالچ آیا۔ یہ تو ایک دن میں فیکٹری کی ایک ہفتے کی تنخواہ تھی!
"کیا چیز کے پارسل ہیں؟"
"بس عام چیزیں ہیں، زیادہ مت سوچو۔ بس پہنچا دو، اور پیسے لو۔"
ریحان نے ہچکچاتے ہوئے حامی بھر لی۔ شروع میں سب کچھ ٹھیک تھا۔ وہ ایک جگہ سے پارسل لیتا اور دوسری جگہ پہنچا دیتا۔ لیکن ایک دن، جب اس نے پارسل کھول کر دیکھا، تو اندر نشہ آور گولیاں تھیں۔
اس کا دماغ گھوم گیا۔ اس نے فوراً سراج سے بات کی۔
"یہ کیا ہے؟ میں یہ کام نہیں کر سکتا۔"
سراج نے اس کی گردن دبا کر کہا، "اب واپسی کا راستہ نہیں ہے، ریحان۔ اگر تم نے انکار کیا تو تمہاری لاش ہی گاؤں واپس جائے گی۔"
ریحان کانپ گیا۔ وہ پھنس چکا تھا۔
فرار اور واپسی
ایک رات، جب وہ ایک پارسل لے کر جا رہا تھا، اچانک پولیس نے چھاپہ مارا۔ سب بھاگنے لگے۔ ریحان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ وہ ایک تنگ گلی میں گھس گیا اور وہاں سے نکل کر سیدھا بس اسٹیشن پہنچا۔
اگلی صبح، وہ کولو تارڑ میں تھا۔ جیسے ہی وہ اپنے گھر پہنچا، اس کی ماں نے اسے دیکھ کر لپٹ لیا۔
"بیٹا! میں جانتی تھی کہ کچھ غلط ہوا ہے، مگر شکر ہے تو واپس آ گیا۔"
ریحان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے والد سے معافی مانگی اور ان سے وعدہ کیا کہ اب وہ کبھی بھی کوئی غلط راستہ نہیں اپنائے گا۔
اب وہ گاؤں میں ہی کچھ کرنے کا سوچ رہا تھا۔ اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک دودھ اور سبزی کا چھوٹا کاروبار شروع کیا۔ یہ کوئی بہت بڑی کمائی نہیں تھی، مگر یہ عزت کی کمائی تھی۔
حقیقت کی تلخ سچائی
ریحان نے سیکھا کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔ گاؤں کے نوجوان اکثر بڑے خواب دیکھ کر شہروں کا رخ کرتے ہیں، مگر وہاں ہر کوئی کامیاب نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ دھوکے میں آ کر زندگی تباہ کر لیتے ہیں۔
زندگی کا اصل سکون وہی ہے جو ایمانداری سے ملے، نہ کہ وہ جو وقتی لالچ میں آ کر بربادی کی طرف لے جائے۔
---
کیا آپ کے گاؤں میں بھی ایسا ہوتا ہے؟
یہ کہانی کولو تارڑ جیسے ہزاروں گاؤں کے نوجوانوں کی کہانی ہو سکتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی ایسا کوئی واقعہ سنا یا دیکھا ہے؟ اگر ہاں، تو اپنے گاؤ
ں کے نوجوانوں کو بھی آگاہ کریں تاکہ وہ سراب کے پیچھے نہ بھاگیں، بلکہ حقیقت کے ساتھ جئیں۔
Comments
Post a Comment