اندھیرے سے روشنی تک

اندھیرے سے روشنی تک

رات کا سناٹا چاروں طرف پھیل چکا تھا۔ فیصل آباد کی ایک پرانی بستی میں ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں مدھم روشنی کا چراغ جل رہا تھا۔ کھڑکی سے آتی ہوا ہلکے پردے کو جھولا دے رہی تھی۔ اس کمرے میں اقصیٰ بیٹھی ہوئی ایک کاپی میں کچھ لکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی اور آنکھوں میں امیدوں کی چمک۔ وہ ایک کامیاب مصنفہ بننے کا خواب دیکھتی تھی، لیکن حالات اس کے حق میں نہیں تھے۔

اس کی ماں دروازے پر کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ "بیٹا، کب تک یہ کہانیاں لکھتی رہو گی؟ یہ لکھنے سے کچھ نہیں ملے گا، کوئی ڈھنگ کا کام دیکھو۔"

اقصیٰ نے سر اٹھایا، ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر مسکرا کر بولی، "امی، ایک دن میری کہانی چھپے گی، اور پھر آپ دیکھیں گی، سب بدل جائے گا۔"

ماں نے آہ بھری اور سر جھٹک کر کمرے سے باہر چلی گئی۔ اقصیٰ کے لیے یہ الفاظ نئے نہیں تھے۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی ماں فکر مند ہے، لیکن وہ اپنے خواب کو آسانی سے چھوڑنے والی نہیں تھی۔

پہلا قدم

اگلے دن اقصیٰ ایک مشہور اشاعتی ادارے کے دفتر پہنچی۔ اس کے ہاتھ میں اس کی کہانیوں کا مسودہ تھا۔ وہ بےحد پُرجوش تھی، لیکن جیسے ہی وہ مدیر کے سامنے پہنچی، اس کا دل دھڑکنے لگا۔

مدیر نے مسودہ کھولا، چند صفحات پلٹے، اور پھر سنجیدہ لہجے میں کہا، "بی بی، یہ کہانیاں عام سی ہیں، کچھ نیا نہیں ہے۔ یہ مارکیٹ میں نہیں چلے گی۔"

یہ سن کر اقصیٰ کے دل کو دھچکا لگا۔ وہ کچھ لمحے خاموش رہی، پھر مسکرا کر بولی، "آپ کی رائے کا شکریہ۔ میں اپنی تحریر کو بہتر بنانے کی کوشش کروں گی۔"

وہ دفتر سے باہر نکلی تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، لیکن اس نے خود کو سنبھالا۔ اگر ایک دروازہ بند ہوا تھا تو دوسرے کھلنے کی امید باقی تھی۔

مشکلات اور محنت

اقصیٰ نے ہار نہ مانی۔ اس نے مختلف اشاعتی اداروں کو اپنی کہانیاں بھیجنی شروع کر دیں۔ اکثر جگہوں سے کوئی جواب نہیں آتا، اور جہاں سے آتا، وہاں انکار ہوتا۔ لیکن وہ اپنی لگن میں کمی نہیں آنے دے رہی تھی۔

اس دوران، اس نے فری لانس لکھنا شروع کر دیا۔ وہ مختلف ویب سائٹس کے لیے مضامین لکھتی، چھوٹے بلاگز کے لیے مواد تیار کرتی، اور یوں تھوڑی بہت آمدنی ہونے لگی۔ مگر اصل خواب اب بھی باقی تھا—اپنی کتاب شائع کرانا۔

امید کی کرن

ایک دن، اسے ایک مشہور آن لائن میگزین کی طرف سے ای میل ملی۔

"ہمیں آپ کی لکھی ہوئی کہانی پسند آئی ہے۔ ہم اسے اپنی ویب سائٹ پر شائع کرنا چاہتے ہیں، اور آپ کو معاوضہ بھی دیا جائے گا۔"

یہ پڑھ کر اقصیٰ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ اس نے جلدی سے اپنی ماں کو آواز دی، "امی، دیکھیں! میری کہانی شائع ہو رہی ہے!"

ماں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا، پھر ای میل پڑھی، اور مسکرا کر بولی، "بیٹا، مجھے تم پر ہمیشہ یقین تھا۔"

یہ پہلا قدم تھا، لیکن بہت اہم تھا۔ اس نے اقصیٰ کو مزید حوصلہ دیا۔ اب وہ زیادہ لگن سے لکھنے لگی، اور چند ماہ بعد، اس کی پہلی کتاب شائع ہو گئی۔

کامیابی کا سفر

اقصیٰ کی کتاب کو زبردست پذیرائی ملی۔ لوگ اس کے اندازِ تحریر کو پسند کرنے لگے۔ جلد ہی ایک بڑے اشاعتی ادارے نے اس سے رابطہ کیا اور اسے مستقل مصنفہ کے طور پر سائن کر لیا۔

آج، اقصیٰ ایک کامیاب مصنفہ تھی۔ اس کی کہانیاں ہزاروں لوگوں تک پہنچ چکی تھیں۔ وہ وہیں تھی جہاں وہ ہمیشہ رہنا چاہتی تھی—اپنے خواب کی تعبیر میں۔

نتیجہ

زندگی میں مشکلات ضرور آتی ہیں، لیکن اگر حوصلہ ہو تو کامیابی کے دروازے ضرور کھلتے ہیں۔ اقصیٰ کی کہانی ان سب کے لیے مثال ہے جو خواب دیکھتے ہیں اور انہیں حقیقت بنانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔



Comments

Popular posts from this blog

Title: WhatsApp ke 10 Zabardast Tips & Tricks (2025) – Jo Har User Ko Maloom Hone Chahiye

مل کے بھی نہ مل پائے

محبت کی کہانی