عنوان: بےنام خط

خاموشی کا کمرہ سدرہ جب سے اپنی نانی اماں کے انتقال کے بعد گاؤں آئی تھی، اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے وقت ایک بوجھ بن گیا ہو۔ وہ پرانی حویلی جس میں وہ بچپن کی چند یادیں چھوڑ آئی تھی، اب اُسے اجنبی لگ رہی تھی۔ ہر دیوار پر وقت کی دھول جمی ہوئی تھی، ہر درخت جیسے کسی راز سے واقف ہو۔ نانی اماں کا کمرہ وہی تھا، جیسا ہمیشہ رہا—مگر اس بار وہ خالی تھا۔ اُس دن بارش ہو رہی تھی۔ سرد ہوا کے تھپیڑے دیواروں سے سر پٹخ رہے تھے۔ سدرہ نے پرانے صندوق کو کھولا جو نانی اماں کے پلنگ کے نیچے رکھا تھا۔ اس میں پرانی چادریں، خوشبو کے بوتلیں، اور چند تصاویر کے ساتھ ایک زرد لفافہ بھی تھا۔ لفافہ پر کچھ نہیں لکھا تھا سوائے الفاظ کے: "میرے دل کے قریب" لفظوں میں عجیب سی لرزش تھی، جیسے ہاتھ کانپ رہے ہوں، یا دل زخمی ہو۔ سدرہ نے لفافہ کھولا، اندر ایک خط تھا۔ ہاتھ سے لکھا گیا، پرانا، سادہ سا۔ > "میری جان، جب تم یہ خط پڑھ رہی ہوگی، شاید میں اس دنیا میں نہ ہوں۔ میں نے تمہیں برسوں چاہا، دعاؤں میں مانگا، خوابوں میں سجایا۔ میں نے تمہیں دور سے دیکھا، مگر قریب آنے کی ہمت نہ ہوئی۔ وقت کا خوف تھا یا معاشرے کی زنجیر؟ ...